ناظرین ہمارے ایک دوست نے ہمیں ایک روایت بھیجی اور پوچھا کہ آیا یہ روایت صحیح ہے؟ متن روایت معترض نے یوں نقل کی تھی:
شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے دروں کی سزا اور حد تک حکم فرمایا ہے اصل عبارت درج کی جاتی ہے:
أنه رأي عليا عليه السلام على منبر الكوفة وهو يقول: لئن اتيت برجل يفضلني على أبي بكر وعمر لا جلدنه حد المفتری۔۔
ترجمہ: انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔ (رجال کشی، ص ٣٣٨، سطر ٤ تا ٦ مطبوعہ کربلا)
جواب: ناظرین ہمارے پاس جو نسخہ رجال کشی کا ہے وہ موسستہ آل البیت علیھم السلام تحقیق سید مھدی رجائی والا ہے۔ اس نسخہ کی جلد ٢ ص ٦٩٥ پر مذکورہ عبارت ہے، لیکن اس سے پہلے کہ میں جواب دوں اصل روایت کے ابتدائی حصہ کو پیش کرتا ہوں:
شیخ کشی نقل کرتے ہے:
وجدت في كتاب أبي محمد جبريل بن أحمد الفاريابي بخطه، حدثني محمد بن عيسى، عن محمد بن الفضيل الكوفي، عن عبد الله بن عبد الرحمن، عن الهيثم بن واقد، عن ميمون بن عبد الله، قال، أتى قوم أبا عبد الله عليه السلام يسألونه الحديث من الأمصار، وأنا عنده، فقال لي: أتعرف أحدا من القوم؟ قلت: لا، فقال: فكيف دخلوا علي؟ قلت: هؤلاء قوم يطلبون الحديث من كل وجه لا يبالون ممن أخذوا الحديث.
بحذف سند۔۔ راوی میمون کہتے ہے کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آتا ہے جن کی عادت یہ تھی کہ وہ مختلف جگاہوں پر جاکر روایات کو لیا کرتے تھے اور میں امام صادق ع کے پاس تھا، تو امام صادق ع نے کہا کیا تم اس گروہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا پھر بھلا یہ میرے پاس کیوں آئیں ہیں؟ تو میں نے کہا یہ گروہ ہر کسی کے پاس جاکر روایات اخذ کرتا ہے اور اس کو یہ فکر نہیں کہ وہ کس سے لے؟
تبصرہ: ناظرین یہاں سے واضح ہوگیا کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آیا جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ وہ احادیث لے اور اس کو کوئی فکر نہ تھی کہ وہ کون سی روایت کس سے لے؟ ہر ایرے غیرے نتھوخیرے سے روایت لینا اس کا مقصد ہوا کرتا تھا۔
روایت آگے چلتی ہے:
فقال لرجل منهم: هل سمعت من غيري من الحديث؟ قال: نعم، قال:
فحدثني ببعض ما سمعت؟ قال انما جئت لاسمع منك لم أجئ أحدثك، وقال للاخر ذاك ما يمنعه ان يحدثني ما سمعت، قال: وتتفضل أن تحدثني بما سمعت، اجعل الذي حدثك حديثه أمانة لاتحدث به أحدا؟ قال: لا، قال فاسمعنا بعض ما اقتبست من العلم حتى نفيد بك انشاء الله.
امام صادق ع نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ کیا تم نے میرے علاوہ بھی کسی سے روایت سنی ہے؟ اس شخص نے کہا جی! تو امام ع نے کہا جو تم نے سنی ہے ذرا اس میں سے کچھ مجھے بھی سناؤ؟ تو اس شخص نے جواب دیا میں آپ کے پاس روایت لینے آیا ہوں، روایت کرنے نہیں؟۔۔۔ (روایت میں پھر کچھ پس و پیش ہوئی کہ آیا وہ شخص روایت کرے گا یا نہیں غرض) امام ع نے کہا ہمیں جو تم نے علم اخذ کیا ہے سناؤ تاکہ ہم بھی اللہ کی مرضی سے مستفید ہوں۔
تبصرہ: ناظرین پچھلے اقتباس میں ثابت کیا تھا کہ لا پرواہ قوم تھی جو ہرکس و ناکس سے علم لیتی، پھر امام ع نے اصرار کیا ذرا مجھے وہ روایات تو سناؤ جو تم لوگوں نے اخذ کی، کچھ تامل کے بعد وہ شخص بتانے پر راضی ہوگیا۔ اب ذیل میں وہ جو روایت کررہا ہے یہ معصوم ع کی روایات نہیں۔۔ چنانچہ اب جو بھی جس مضمون کی روایت ہوگی اس کا بار امام ع پر نہیں بلکہ اس کا بار اس شخص پر ہوگا۔ پھر ما بعد امام ع اس کی نقل کردہ مزخرفات و کذب بیانی پر مبنی سفیان ثوری کی روایات سنتے ہیں جس میں پہلی یہ ہے:
قال: حدثني سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد قال: النبيذ كله حلال الا الخمر
میں نے سفیان ثوری سے سنا انہوں نے امام صادق ع سے کہ نبیذ ساری کی ساری حلال ہے ما سوائے خمر کے
دوسری روایت وہ یوں بیان کرتا ہے:
قال: حدثني سفيان عمن حدثه عن محمد بن علي أنه قال: من لا يمسح على خفيه فهو صاحب بدعة
سفیان نے مجھے روایت کی اور سفیان کو کسی نے روایت دی کہ امام باقر ع نے کہا جو موزوں پر مسح نہ کرے وہ بدعتی شخص ہے۔
تبصرہ: ناظرین یہی سے واضح ہوگیا کہ یہ سفیان ثوری کی باطل و کذب بیانی پر مشتمل روایات کا پلڑا ہے جس کو امام ع اس شخص کی زبانی سن رہے ہیں، پھر وہ یہ منقولہ بالا عبارت کو نقل کرتا ہے:
قال: حدثني سفيان الثوري، عن محمد بن المنكدر، أنه رأى عليا عليه السلام على منبر الكوفة وهو يقول: لئن أتيت برجل يفضلني على أبي بكر وعمر لا جلدنه حد المفتري.
سفیان ثوری نے مجھے روایت کی اس نے محمد بن منکدر سے کہ اس نے علی ع کو منبر کوفہ پر دیکھا اور امیر المؤمنین ع نے کہا اگر میرے پاس ایک شخص لائے جائے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔
تبصرہ: ناظرین تو یہ اصل شیعی و معصوم ع کی روایت ہے ہی نہیں بلکہ سفیان ثوری کی جھوٹی روایات میں سے ایک ہے۔ روایت چلتی رہتی ہے اور آخر میں امام صادق ع کا یہ مکالمہ نقل کیا گیا ہے:
فقال له أبو عبد الله عليه السلام: من أي البلاد أنت؟ قال: من أهل البصرة، قال فهذا الذي تحدث عنه وتذكر اسمه جعفر بن محمد، تعرفه؟ قال. لا، قال فهل سمعت منه شيئا قط؟ قال: لا، قال: فهذه الأحاديث عندك حق؟ قال نعم، قال: فمتى سمعتها؟ قال: لا أحفظ، قال: الا أنها أحاديث أهل مصرنا منذ دهر لا يمترون فيها.
قال له أبو عبد الله عليه السلام: لو رأيت هذا الرجل الذي تحدث عنه، فقال لك هذه التي ترويها عني كذب لا أعرفها ولم أحدث بها هل كنت تصدقه؟ قال: لا، قال:
لم، قال: لأنه شهد على قوله رجال ولو شهد أحدهم على عنق رجل لجاز قوله.
امام صادق ع نے اس روایت کرنے والے سے پوچھا کہ تم شہر سے ہو؟ اس نے کہا میں بصری ہوں؟ تو امام نے کہا تو یہ تم جس شخص سے تم نے روایت لی ہے اور تم نے جعفر بن محمد کا نام بار بار لیا؟ جانتے ہو کون ہے؟ تو اس نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا کہ تم نے کبھی اس سے کوئی روایت لی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا کیا یہ تمام روایات تمہارے نزدیک حق ہے؟ اس نے کہا بلاشک و شبہ۔ تو امام ع نے کہا تم نے ان کو کب سنا؟ تو اس نے کہا مجھے باریک بینی سے تو یاد نہیں لیک یہ ہمارے شہر میں کافی عرصے سے روایات پھیلی ہوئیں ہیں جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کرتا (یعنی سب کے نزدیک یہ ثابت شدہ صحیح روایات ہیں)۔ تو امام ع نے اس سے کہا اگر تم اس شخص کو دیکھ لو جس سے تم روایت کو منسوب کررہے ہو اور وہ کہے کہ جو تم نے نقل کیا یہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں اور میں ان روایات کو نہیں جانتا (یعنی روایت صحیح نہیں) اور میں نے یہ روایات کبھی بھی نقل نہیں کیں؟ تو تم اس شخص کی بات مان لو گے؟ تو اس نے کہا نہیں؟ امام ع نے کہا ایسا کیوں؟ تو اس نے کہا ایسے افراد نے اس شخص سے روایت کی کہ اگر وہ گواہی دیں کسی کی گردن کے حوالے سے تو وہ بھی نافذ ہوگی۔ (یعنی امام ع سے نقل کرنے والے اس شخص کے نزدیک بہت معتمد علیہ اشخاص تھے جیسے سفیان ثوری)
تبصرہ: ناظرین واضح ہوگیا کہ خود امام ع کے نزدیک یہ جھوٹی روایات تھیں، اور آخر میں امام ع کہتے ہے:
عجب حديثهم كان عندي الكذب علي والحكاية عني ما لم أقل ولم يسمعه عني أحد، وقولهم لو أنكر الأحاديث ما صدقناه ما لهؤلاء لا أمهل الله لهم ولا أملى لهم
امام صادق ع کہتے ہے کہ ان کی عجیب باتیں تو دیکھو جو میرے نزدیک واضح طور پر جھوٹ ہیں مجھ سے منسوب کیں اور ایسی باتوں کو میری طرف منتسب کیں جو نہ میں نے کہیں اور نہ کسی نے مجھ سے سنیں، اور ان کا کہنا کہ اگر میں ان روایات کو خود بنفس نفیس بھی کہوں کہ یہ غلط ہیں تو جب بھی یہ میری بات نہیں مانیں گے تو انہیں کیا ہوگیا ہے، اللہ ان کو مھلت اور نہ کشادگی دے۔
حوالہ: اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) ص ٦٩٢-٦٩٩
تبصرہ: ناظرین بتائے ایک موضوع روایت اس کو شیعی روایت بناکر پیش کیا جارہا ہے؟ کیا اس سے بڑی بددیانتی ہوسکتی ہے؟
مزید سنئے امیر المؤمنین ع افضل الخلق تھے بعد رسول ص۔
ابن حبان نقل کرتے ہے:
حدثنا إبراهيم بن نصر العنبري ثنا يوسف بن عيسى ثنا الفضل بن موسى عن شريك عن عثمان بن أبى زرعة عن سالم بن أبى الجعد قال سئل جابر بن عبد الله عن على فقال ذاك خير البشر من شك فيه فقد كفر
سالم بن ابی جعد کہتے ہے کہ جابر الانصاری سے پوچھا گیا کہ علی ع کے بارے میں تو جابر ع نے کہا وہ خیر البشر ہے جو اس میں شک کرے اس نے کفر کیا
حوالہ: الثقات لابن حبان جلد ٩ ص ٢٨١
جابر کے اس قول کا شاہد حدیث طیر ہے جو بالکل صحیح ہے، ترمذی نقل کرتے ہے:
حدثنا سفيان بن وكيع حدثنا عبيد الله بن موسى عن عيسى بن عمر عن السدي عن أنس بن مالك قال كان عند النبي صلى الله عليه وسلم طير فقال اللهم ائتني بأحب خلقك إليك يأكل معي هذا الطير فجاء علي فأكل معه
انس بن مالک رسول ص کے پاس تھے کہ آپ ص کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ تھا تو رسول ص نے دعا کہ کہ اے اللہ میرے پاس اس شخص کو بھیج جو ساری مخلوق میں تیرا سب سے محبوب ترین ہو جو میرے ساتھ یہ پرندہ کے گوشت کو کھائے تو علی ع حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ ص کے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھایا۔
مشہور معاصر زبیر علی زئی نے روایت کی سند کو حسن کہا ہے۔
حوالہ: سنن الترمذی جلد ٦ ص ٣٩٣
تبصرہ: امیر المؤمنین ع رسول ص کے بعد افضل الخلق ہے اور جو اس میں شک کرے وہ اپنی خیر منائے۔
خير طلب
شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے دروں کی سزا اور حد تک حکم فرمایا ہے اصل عبارت درج کی جاتی ہے:
أنه رأي عليا عليه السلام على منبر الكوفة وهو يقول: لئن اتيت برجل يفضلني على أبي بكر وعمر لا جلدنه حد المفتری۔۔
ترجمہ: انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔ (رجال کشی، ص ٣٣٨، سطر ٤ تا ٦ مطبوعہ کربلا)
جواب: ناظرین ہمارے پاس جو نسخہ رجال کشی کا ہے وہ موسستہ آل البیت علیھم السلام تحقیق سید مھدی رجائی والا ہے۔ اس نسخہ کی جلد ٢ ص ٦٩٥ پر مذکورہ عبارت ہے، لیکن اس سے پہلے کہ میں جواب دوں اصل روایت کے ابتدائی حصہ کو پیش کرتا ہوں:
شیخ کشی نقل کرتے ہے:
وجدت في كتاب أبي محمد جبريل بن أحمد الفاريابي بخطه، حدثني محمد بن عيسى، عن محمد بن الفضيل الكوفي، عن عبد الله بن عبد الرحمن، عن الهيثم بن واقد، عن ميمون بن عبد الله، قال، أتى قوم أبا عبد الله عليه السلام يسألونه الحديث من الأمصار، وأنا عنده، فقال لي: أتعرف أحدا من القوم؟ قلت: لا، فقال: فكيف دخلوا علي؟ قلت: هؤلاء قوم يطلبون الحديث من كل وجه لا يبالون ممن أخذوا الحديث.
بحذف سند۔۔ راوی میمون کہتے ہے کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آتا ہے جن کی عادت یہ تھی کہ وہ مختلف جگاہوں پر جاکر روایات کو لیا کرتے تھے اور میں امام صادق ع کے پاس تھا، تو امام صادق ع نے کہا کیا تم اس گروہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا پھر بھلا یہ میرے پاس کیوں آئیں ہیں؟ تو میں نے کہا یہ گروہ ہر کسی کے پاس جاکر روایات اخذ کرتا ہے اور اس کو یہ فکر نہیں کہ وہ کس سے لے؟
تبصرہ: ناظرین یہاں سے واضح ہوگیا کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آیا جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ وہ احادیث لے اور اس کو کوئی فکر نہ تھی کہ وہ کون سی روایت کس سے لے؟ ہر ایرے غیرے نتھوخیرے سے روایت لینا اس کا مقصد ہوا کرتا تھا۔
روایت آگے چلتی ہے:
فقال لرجل منهم: هل سمعت من غيري من الحديث؟ قال: نعم، قال:
فحدثني ببعض ما سمعت؟ قال انما جئت لاسمع منك لم أجئ أحدثك، وقال للاخر ذاك ما يمنعه ان يحدثني ما سمعت، قال: وتتفضل أن تحدثني بما سمعت، اجعل الذي حدثك حديثه أمانة لاتحدث به أحدا؟ قال: لا، قال فاسمعنا بعض ما اقتبست من العلم حتى نفيد بك انشاء الله.
امام صادق ع نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ کیا تم نے میرے علاوہ بھی کسی سے روایت سنی ہے؟ اس شخص نے کہا جی! تو امام ع نے کہا جو تم نے سنی ہے ذرا اس میں سے کچھ مجھے بھی سناؤ؟ تو اس شخص نے جواب دیا میں آپ کے پاس روایت لینے آیا ہوں، روایت کرنے نہیں؟۔۔۔ (روایت میں پھر کچھ پس و پیش ہوئی کہ آیا وہ شخص روایت کرے گا یا نہیں غرض) امام ع نے کہا ہمیں جو تم نے علم اخذ کیا ہے سناؤ تاکہ ہم بھی اللہ کی مرضی سے مستفید ہوں۔
تبصرہ: ناظرین پچھلے اقتباس میں ثابت کیا تھا کہ لا پرواہ قوم تھی جو ہرکس و ناکس سے علم لیتی، پھر امام ع نے اصرار کیا ذرا مجھے وہ روایات تو سناؤ جو تم لوگوں نے اخذ کی، کچھ تامل کے بعد وہ شخص بتانے پر راضی ہوگیا۔ اب ذیل میں وہ جو روایت کررہا ہے یہ معصوم ع کی روایات نہیں۔۔ چنانچہ اب جو بھی جس مضمون کی روایت ہوگی اس کا بار امام ع پر نہیں بلکہ اس کا بار اس شخص پر ہوگا۔ پھر ما بعد امام ع اس کی نقل کردہ مزخرفات و کذب بیانی پر مبنی سفیان ثوری کی روایات سنتے ہیں جس میں پہلی یہ ہے:
قال: حدثني سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد قال: النبيذ كله حلال الا الخمر
میں نے سفیان ثوری سے سنا انہوں نے امام صادق ع سے کہ نبیذ ساری کی ساری حلال ہے ما سوائے خمر کے
دوسری روایت وہ یوں بیان کرتا ہے:
قال: حدثني سفيان عمن حدثه عن محمد بن علي أنه قال: من لا يمسح على خفيه فهو صاحب بدعة
سفیان نے مجھے روایت کی اور سفیان کو کسی نے روایت دی کہ امام باقر ع نے کہا جو موزوں پر مسح نہ کرے وہ بدعتی شخص ہے۔
تبصرہ: ناظرین یہی سے واضح ہوگیا کہ یہ سفیان ثوری کی باطل و کذب بیانی پر مشتمل روایات کا پلڑا ہے جس کو امام ع اس شخص کی زبانی سن رہے ہیں، پھر وہ یہ منقولہ بالا عبارت کو نقل کرتا ہے:
قال: حدثني سفيان الثوري، عن محمد بن المنكدر، أنه رأى عليا عليه السلام على منبر الكوفة وهو يقول: لئن أتيت برجل يفضلني على أبي بكر وعمر لا جلدنه حد المفتري.
سفیان ثوری نے مجھے روایت کی اس نے محمد بن منکدر سے کہ اس نے علی ع کو منبر کوفہ پر دیکھا اور امیر المؤمنین ع نے کہا اگر میرے پاس ایک شخص لائے جائے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔
تبصرہ: ناظرین تو یہ اصل شیعی و معصوم ع کی روایت ہے ہی نہیں بلکہ سفیان ثوری کی جھوٹی روایات میں سے ایک ہے۔ روایت چلتی رہتی ہے اور آخر میں امام صادق ع کا یہ مکالمہ نقل کیا گیا ہے:
فقال له أبو عبد الله عليه السلام: من أي البلاد أنت؟ قال: من أهل البصرة، قال فهذا الذي تحدث عنه وتذكر اسمه جعفر بن محمد، تعرفه؟ قال. لا، قال فهل سمعت منه شيئا قط؟ قال: لا، قال: فهذه الأحاديث عندك حق؟ قال نعم، قال: فمتى سمعتها؟ قال: لا أحفظ، قال: الا أنها أحاديث أهل مصرنا منذ دهر لا يمترون فيها.
قال له أبو عبد الله عليه السلام: لو رأيت هذا الرجل الذي تحدث عنه، فقال لك هذه التي ترويها عني كذب لا أعرفها ولم أحدث بها هل كنت تصدقه؟ قال: لا، قال:
لم، قال: لأنه شهد على قوله رجال ولو شهد أحدهم على عنق رجل لجاز قوله.
امام صادق ع نے اس روایت کرنے والے سے پوچھا کہ تم شہر سے ہو؟ اس نے کہا میں بصری ہوں؟ تو امام نے کہا تو یہ تم جس شخص سے تم نے روایت لی ہے اور تم نے جعفر بن محمد کا نام بار بار لیا؟ جانتے ہو کون ہے؟ تو اس نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا کہ تم نے کبھی اس سے کوئی روایت لی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا کیا یہ تمام روایات تمہارے نزدیک حق ہے؟ اس نے کہا بلاشک و شبہ۔ تو امام ع نے کہا تم نے ان کو کب سنا؟ تو اس نے کہا مجھے باریک بینی سے تو یاد نہیں لیک یہ ہمارے شہر میں کافی عرصے سے روایات پھیلی ہوئیں ہیں جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کرتا (یعنی سب کے نزدیک یہ ثابت شدہ صحیح روایات ہیں)۔ تو امام ع نے اس سے کہا اگر تم اس شخص کو دیکھ لو جس سے تم روایت کو منسوب کررہے ہو اور وہ کہے کہ جو تم نے نقل کیا یہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں اور میں ان روایات کو نہیں جانتا (یعنی روایت صحیح نہیں) اور میں نے یہ روایات کبھی بھی نقل نہیں کیں؟ تو تم اس شخص کی بات مان لو گے؟ تو اس نے کہا نہیں؟ امام ع نے کہا ایسا کیوں؟ تو اس نے کہا ایسے افراد نے اس شخص سے روایت کی کہ اگر وہ گواہی دیں کسی کی گردن کے حوالے سے تو وہ بھی نافذ ہوگی۔ (یعنی امام ع سے نقل کرنے والے اس شخص کے نزدیک بہت معتمد علیہ اشخاص تھے جیسے سفیان ثوری)
تبصرہ: ناظرین واضح ہوگیا کہ خود امام ع کے نزدیک یہ جھوٹی روایات تھیں، اور آخر میں امام ع کہتے ہے:
عجب حديثهم كان عندي الكذب علي والحكاية عني ما لم أقل ولم يسمعه عني أحد، وقولهم لو أنكر الأحاديث ما صدقناه ما لهؤلاء لا أمهل الله لهم ولا أملى لهم
امام صادق ع کہتے ہے کہ ان کی عجیب باتیں تو دیکھو جو میرے نزدیک واضح طور پر جھوٹ ہیں مجھ سے منسوب کیں اور ایسی باتوں کو میری طرف منتسب کیں جو نہ میں نے کہیں اور نہ کسی نے مجھ سے سنیں، اور ان کا کہنا کہ اگر میں ان روایات کو خود بنفس نفیس بھی کہوں کہ یہ غلط ہیں تو جب بھی یہ میری بات نہیں مانیں گے تو انہیں کیا ہوگیا ہے، اللہ ان کو مھلت اور نہ کشادگی دے۔
حوالہ: اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) ص ٦٩٢-٦٩٩
تبصرہ: ناظرین بتائے ایک موضوع روایت اس کو شیعی روایت بناکر پیش کیا جارہا ہے؟ کیا اس سے بڑی بددیانتی ہوسکتی ہے؟
مزید سنئے امیر المؤمنین ع افضل الخلق تھے بعد رسول ص۔
ابن حبان نقل کرتے ہے:
حدثنا إبراهيم بن نصر العنبري ثنا يوسف بن عيسى ثنا الفضل بن موسى عن شريك عن عثمان بن أبى زرعة عن سالم بن أبى الجعد قال سئل جابر بن عبد الله عن على فقال ذاك خير البشر من شك فيه فقد كفر
سالم بن ابی جعد کہتے ہے کہ جابر الانصاری سے پوچھا گیا کہ علی ع کے بارے میں تو جابر ع نے کہا وہ خیر البشر ہے جو اس میں شک کرے اس نے کفر کیا
حوالہ: الثقات لابن حبان جلد ٩ ص ٢٨١
جابر کے اس قول کا شاہد حدیث طیر ہے جو بالکل صحیح ہے، ترمذی نقل کرتے ہے:
حدثنا سفيان بن وكيع حدثنا عبيد الله بن موسى عن عيسى بن عمر عن السدي عن أنس بن مالك قال كان عند النبي صلى الله عليه وسلم طير فقال اللهم ائتني بأحب خلقك إليك يأكل معي هذا الطير فجاء علي فأكل معه
انس بن مالک رسول ص کے پاس تھے کہ آپ ص کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ تھا تو رسول ص نے دعا کہ کہ اے اللہ میرے پاس اس شخص کو بھیج جو ساری مخلوق میں تیرا سب سے محبوب ترین ہو جو میرے ساتھ یہ پرندہ کے گوشت کو کھائے تو علی ع حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ ص کے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھایا۔
مشہور معاصر زبیر علی زئی نے روایت کی سند کو حسن کہا ہے۔
حوالہ: سنن الترمذی جلد ٦ ص ٣٩٣
تبصرہ: امیر المؤمنین ع رسول ص کے بعد افضل الخلق ہے اور جو اس میں شک کرے وہ اپنی خیر منائے۔
خير طلب
تبصرے