شریعت تمام مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے بالخصوص ان امور پر جن کا تعلق ایمانیات سے ہو، اس میں ہر کسی کے لئے وہی قواعد و ضوابط ہیں جو دوسروں کے لئے ہے، یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار ایک صحابی رسول ص کے لئے بھی واجب ہے اور دیگر امتی کے لئے بھی یونہی رسول ص کی عزت و احترام بھی ہر کسی پر برابر سے واجب ہے لیکن ادھر اگر کوئی خاتون رسول ص پر سخت الفاظ کا استعمال کریں تو وہ ماجور اور قابل معافی کہلائیں گی لیکن وہی کوئی دوسرا شخص کرے تو گستاخ رسول۔۔ یہی دھرا معیار شیعہ پسند نہیں کرتے اور چونکہ وہ اس بات کے قائل ہے کہ شریعت کا اطلاق صحابہ اور غیر صحابہ پر برابر سے ہوتا ہے تو اس طریقہ کار سے اہلسنت کافی پریشان ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نہیں صحابہ کا اسپیشل اسٹیٹس برقرار رہے اور جو عام امتی کا گناہ ہو وہ صحابہ کی نیکی شمار کی جائے، اس کی مثال احمد رضا خان صاحب کے ایک ملفوظ میں ہے جو ارشاد فرماتے ہے:
ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنھا جو الفاظ شان جلال میں ارشاد کرگئی ہیں دوسرا کہے تو گردن ماری جائے۔۔۔ الخ
حوالہ: الملفوظ مع وصایا شریف حصہ سوم ص 6 قادری کتب خانہ۔
تبصرہ: یعنی اگر عام امتی کرے تو وہ گستاخی کے جرم کا مرتکب ہوتے ہوئے گستاخ قرار
ائے لیکن چونکہ فلاں خاتون 'ام المؤمنین' تھی تو مسئلہ نہیں، تف ہو دوہرے معیار والوں پر۔
خیر طلب
ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنھا جو الفاظ شان جلال میں ارشاد کرگئی ہیں دوسرا کہے تو گردن ماری جائے۔۔۔ الخ
حوالہ: الملفوظ مع وصایا شریف حصہ سوم ص 6 قادری کتب خانہ۔
تبصرہ: یعنی اگر عام امتی کرے تو وہ گستاخی کے جرم کا مرتکب ہوتے ہوئے گستاخ قرار
ائے لیکن چونکہ فلاں خاتون 'ام المؤمنین' تھی تو مسئلہ نہیں، تف ہو دوہرے معیار والوں پر۔
خیر طلب
تبصرے