بسم اللہ الرحمان الرحیم
ماضی میں جو کتب ہماری نظروں سے گذریں ہیں، ان میں اثبات کفر شیعہ میں یہ کافی کہا گیا ہے کہ شیعہ جناب عائشہ کے زنا کے قائل ہیں۔۔ چنانچہ ماضی میں ہم نے اہلسنت علماء کے اقوال سے ثابت کیا کہ ایسی نسبت شیعوں کی طرف کرنا کذب اور جہالت پر مبنی ہے اور جو بعض الناس جناب عائشہ سے نسبت زنا کرتے ہیں اس کی کوئی علمی حیثیت مذہب حقہ کے ہاں نہیں۔
بہرحال اہلسنت بعض ضعیف اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے سندی جوابات کے علاوہ متن کی بھی صحیح توجیہ پیش کی جاتی ہے لیکن بہرحال یہ ابھی ہمارا موضوع نہیں۔ البتہ آج ہم اہلسنت مکتب بریلوی کے مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام اہلسنت احمد رضا خان بریلوی کی ایک عبارت پیش کررہے ہیں جو انہوں نے جناب عائشہ کے حق میں کہی:
ماضی میں جو کتب ہماری نظروں سے گذریں ہیں، ان میں اثبات کفر شیعہ میں یہ کافی کہا گیا ہے کہ شیعہ جناب عائشہ کے زنا کے قائل ہیں۔۔ چنانچہ ماضی میں ہم نے اہلسنت علماء کے اقوال سے ثابت کیا کہ ایسی نسبت شیعوں کی طرف کرنا کذب اور جہالت پر مبنی ہے اور جو بعض الناس جناب عائشہ سے نسبت زنا کرتے ہیں اس کی کوئی علمی حیثیت مذہب حقہ کے ہاں نہیں۔
بہرحال اہلسنت بعض ضعیف اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے سندی جوابات کے علاوہ متن کی بھی صحیح توجیہ پیش کی جاتی ہے لیکن بہرحال یہ ابھی ہمارا موضوع نہیں۔ البتہ آج ہم اہلسنت مکتب بریلوی کے مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام اہلسنت احمد رضا خان بریلوی کی ایک عبارت پیش کررہے ہیں جو انہوں نے جناب عائشہ کے حق میں کہی:
تنگ و چست ان کالباس اور وہ جوبن کوابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹاپڑتاہے جوبن میرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر
حوالہ: حدائق بخشش، جلد سوم، ص ٣٧، طبع پٹیالہ۔
تبصرہ: ادھر واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ جناب عائشہ اتنا ٹائٹ و جسم سے لگا ہوا لباس پہنتی تھی کہ ان کے جسم کے اعضاء ابھر رہے ہوتے تھے۔۔ اور پھر اس پر مزید خطرناک تبصرہ کیا ہے جس کی تفصیل کی ہمت نہیں۔ بہرحال بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ احمد رضا صاحب کے اشعار نہایت اشتعال دلانے والے ہیں اور جو ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم جناب عائشہ پر جنسی تبصرہ و جنسی الزامات لگاتے ہیں تو انہیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بعض حضرات کی جہالت پورے مذہب پر ملزم نہیں جب کہ ان میں سے کوئی بھی مذہب حقہ کی ایسی شخصیت نہ ہو جس سے نمائندی مذہب کی امید کی جاسکتی ہو جب کہ ادھر طائفہ بریلویہ کے بڑے اعلی حضرت کا کلام بہرحال سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر شیعہ یہ کہتے تو قتل کے مستحق ہوتے اور اہلسنت کریں تو کوئی مسئلہ نہیں۔
مزید یہ کہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ مولوی احمد رضا خان نے اپنے ملفوظات میں بھی جناب عائشہ سے سخت بات منسوب کی تھی کہ اگر جناب عائشہ والا فعل کوئی اور کرتا تو اس کی گردن ماری جاتی۔ چنانچہ یہ دونوں ہمارے لئے قابل استدلال ہیں۔ اب استدلال کی کیفیت اشکال کے جواب میں بتائی جاتی ہے۔
اشکال کرنے والا کہتا ہے کہ یہ کتاب کا حصہ سوم احمد رضا خان کا نہیں ۔ تو جواب میں عرض ہے کہ احمد رضا صاحب کے اوپر پورا ایک نمبر ایک ادارہ سے شائع ہوا اور اس میں یہ عبارت موجود ہے:
آپ کا تخلص رضا تھا آپ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش ‘‘کے نام سے تین حصوں میں شائع ہوچکا ہے اور تین چار ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔
حوالہ: المیزان امام احمد رضا نمبر، ص ٤٤٧، طبع بمبئی ہند۔
چنانچہ ہمارے پاس دیگر حوالے جات بھی محفوظ ہیں اس امر کے اثبات میں کہ یہ کلام اعلی حضرت امام اہلسنت کا ہی ہے لیکن ایک حوالہ کافی ہے۔
دوسری شق کو اگر تسلیم کیا جائے کہ اس کی نسبت احمد رضا سے مشکوک ہے اور فقط نسبت کافی نہیں تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ جواب بھی ہمارا مؤید ہے کیونکہ بعض مشکوک عبارات اور بعض مشکوک اخبار کو دیکھ کر اگر آپ لوگ پورے مذہب حقہ پر اعتراض کررہے ہیں تو جو چیز اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں آپلائی کرتے۔ یعنی لینے دینے کے معیار تو ایک ہو۔ چنانچہ اگر دوسری شق کو تسلیم کریں جب بھی یہ ہماری طرف سے الزامی جواب سمجھیں۔
خیر طلب
تبصرہ: ادھر واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ جناب عائشہ اتنا ٹائٹ و جسم سے لگا ہوا لباس پہنتی تھی کہ ان کے جسم کے اعضاء ابھر رہے ہوتے تھے۔۔ اور پھر اس پر مزید خطرناک تبصرہ کیا ہے جس کی تفصیل کی ہمت نہیں۔ بہرحال بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ احمد رضا صاحب کے اشعار نہایت اشتعال دلانے والے ہیں اور جو ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم جناب عائشہ پر جنسی تبصرہ و جنسی الزامات لگاتے ہیں تو انہیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بعض حضرات کی جہالت پورے مذہب پر ملزم نہیں جب کہ ان میں سے کوئی بھی مذہب حقہ کی ایسی شخصیت نہ ہو جس سے نمائندی مذہب کی امید کی جاسکتی ہو جب کہ ادھر طائفہ بریلویہ کے بڑے اعلی حضرت کا کلام بہرحال سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر شیعہ یہ کہتے تو قتل کے مستحق ہوتے اور اہلسنت کریں تو کوئی مسئلہ نہیں۔
مزید یہ کہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ مولوی احمد رضا خان نے اپنے ملفوظات میں بھی جناب عائشہ سے سخت بات منسوب کی تھی کہ اگر جناب عائشہ والا فعل کوئی اور کرتا تو اس کی گردن ماری جاتی۔ چنانچہ یہ دونوں ہمارے لئے قابل استدلال ہیں۔ اب استدلال کی کیفیت اشکال کے جواب میں بتائی جاتی ہے۔
اشکال کرنے والا کہتا ہے کہ یہ کتاب کا حصہ سوم احمد رضا خان کا نہیں ۔ تو جواب میں عرض ہے کہ احمد رضا صاحب کے اوپر پورا ایک نمبر ایک ادارہ سے شائع ہوا اور اس میں یہ عبارت موجود ہے:
آپ کا تخلص رضا تھا آپ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش ‘‘کے نام سے تین حصوں میں شائع ہوچکا ہے اور تین چار ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔
حوالہ: المیزان امام احمد رضا نمبر، ص ٤٤٧، طبع بمبئی ہند۔
چنانچہ ہمارے پاس دیگر حوالے جات بھی محفوظ ہیں اس امر کے اثبات میں کہ یہ کلام اعلی حضرت امام اہلسنت کا ہی ہے لیکن ایک حوالہ کافی ہے۔
دوسری شق کو اگر تسلیم کیا جائے کہ اس کی نسبت احمد رضا سے مشکوک ہے اور فقط نسبت کافی نہیں تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ جواب بھی ہمارا مؤید ہے کیونکہ بعض مشکوک عبارات اور بعض مشکوک اخبار کو دیکھ کر اگر آپ لوگ پورے مذہب حقہ پر اعتراض کررہے ہیں تو جو چیز اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں آپلائی کرتے۔ یعنی لینے دینے کے معیار تو ایک ہو۔ چنانچہ اگر دوسری شق کو تسلیم کریں جب بھی یہ ہماری طرف سے الزامی جواب سمجھیں۔
خیر طلب
سیدھا سادا جواب ہے۔ یہ بدبخت اصلا شیعہ ہی ہے تقیہ کر کے مسلمانوں میں گھسا رہا جتنے ہندوستانی اس کی وجہ سے گمراہ ہوئے اس کی مثال مشکل ہے۔ لگتا ہے یہاں تقیہ بھول گیا۔ اور شیعہ سے بڑا دھوکے باز کوئی نہیں اپنے بندے اہل سنت میں داخل کر کے اس طرح دلیل دیتے ہیں اور لوگوں کو بےوقوف بناتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبالکل صحیح کہا
حذف کریںسہی کہا آپ نے
حذف کریںدیوبندی حرام زادوں کاجھوٹ
جواب دیںحذف کریںبریلوی اسلام سے خارج ہیں ان کے بارے میں بات مت کرو بھائی
حذف کریںتم جیسے تکفیریوں پر خدا کی لعنت ہو، بغض آل رسول (ص) میں تم اتنا آگے بڑھ گئے ہو کہ کفر کے فتوی دینے لگے ہو، ڈرو خدا کے قہر سے، اور اپنی بدعات سے باز آو. تم لوگوں کو تمہاری ہی کتابوں سے حوالے دے جائیں تو بھی تم نہیں مانتے ہو؟ بغزیوں.
جواب دیںحذف کریںگستاخ خود الزام دوسروں پر ، واہ رے منافقت
جواب دیںحذف کریںاحمد رضا کتا انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہے
جواب دیںحذف کریں